باپ کی پکار سنو تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) میں باپ ہوں ...! !!! نہ آنکھ میں آنسو، نہ لب پہ فغاں،!!میں خوشی میں بھی چپ، غم میں بھی رواں۔!!میں وہ سایہ ہوں جو خود دھوپ میں جلے،!!مگر اولاد کی راہوں کو چھاؤں کرے۔!! میں باپ ہوں ...! !! جب تم گِرے، میں نے تھاما،!!جب تم چُپ ہوئے، میں نے جانا۔!!میں نے تمھاری بے رنگ دُنیا میں!!اپنے خوابوں کا رنگ بھرا،!!مگر جب میری آنکھیں بجھنے لگیں!!تو کسی نے نہ پوچھا کہ کیا سہہ رہا۔!! میری دعائیں لوریاں نہیں بن سکیں،!! میری قربانیاں شاعری نہیں بنیں، میں نے بھی راتیں جاگ کر گزاریں،!!مگر میرا درد کسی کا نغمہ نہیں بنا۔ پیارے بچو!! لوگ ماں کی عظمت پہ کتابیں لکھتے ہیں۔ اور باپ کی خاموشی کو نظرانداز کرتے ہیں۔ماں جنت کا در ہے — یہ سچ ہے مگر باپ دروازے تک لاتا ہے، یہ کوئی کیوں نہیں کہتا؟۔ میں وہ در ہوں جس پر دستک کوئی نہیں دیتا،۔ میں وہ دیوار ہوں جس پر تصویر کوئی نہیں لگاتا۔میں وہ صحن ہوں جہاں خوشیاں رقص کرتی ہیں۔مگر صفائی کے بعد میرا نام مٹ جاتا ہے۔ باپ وہ کردار ہے ۔جس کی نہ آہٹ ہوتی ہے، نہ شہرت۔میں نے تمہیں گرمی میں چھتری ...